دنیا ! میں فاتح کہلوانے والے سکندر اعظم کی شکست !
لوگ کہتے ہیں کہ امریکہ کی ہر شے یکا یک مشہور ہوتی ہے ۔ امریکیوں نے ہمارے بند کباب کو برگر اور آلو قیمے والے نان کو پیزا بنا دیا تو ہر طرف برگر برگر اور پیزا پیزا ہو گیا۔ امریکی سکالر ولیم فورڈ نے کہا کہ” ہسٹری از اے بنک ” تو پوری دنیا میں ” تاریخ ایک بینک ہے ” کا مقولہ مشہور ہو گیا۔حالانکہ بینک کے معانی میں ایمانداری اور امانت داری سب سے پہلی شرط ہے۔ لیکن بادشاہوں کے زرخرید قصیدہ گو مورخین کی لکھی ہوئی کچھ تاریخی کتب سے گمان ہوتا ہے کہ ” تاریخ ایک گھپلا اور چکر بازی ہے”۔ میں تاریخ نویسی کے حوالے سے جناب مستنصر حسین تارڑ سے متفق ہوں کہ زورآور بادشاہ اپنی من مرضی کے مطابق تاریخ لکھواتے ہیں اور تاریخ نویس کی جان کی امان، عافیت اور منفعت بھی اسی بات میں پنہاں ہوتی ہے کہ وہ اپنے آقاؤں کی خوشنودی کیلئے ان کی شان میں ڈفلیاں بجاتا رہے۔احباب یہ عجیب اتفاق قابل صد غور ہے کہ امریکہ کی طرح پوری دنیا کی فتح کا خواب دیکھنے والا سکندر بھی امریکہ کی طرح پاکستان کے قبائلی اور شمالی علاقہ جات سے دھول چاٹ کر اس خطے سے نامراد واپس لوٹا تھا۔ میں بھارت، امریکہ اور مغربی اتحاد کے جارحین کیخلاف متحرک کشمیری، افغانی اور پاکستانیوں ہی کو اصل مجاہدین سمجھتا ہوں ۔ بھارتی ایجنٹ، جہادی نہیں فسادی ہیں ۔یہاں خیال رہے کہ سکندراعظم کا اس خطے پر حملہ زمانہ اسلام سے صدیوں پہلے 326 قبل مسیح کی بات ہے ۔ لہذا اس دور میں روشن خیال یا شدت پسند مسلمانوں کا کوئی وجود نہ تھا۔ لیکن اس قبائلی علاقے کی قدیم تاریخ بھی اس امر کی گواہ رہی ہے کہ یہ کوہساری لوگ بیرونی حملہ آوروں کیخلاف ہمیشہ ہی سے غیرتمند مزاحمت کی علامت بنے رہے ہیں۔ جب سکندر افغانستان سے ہندوستان پر حملہ آور ہونے کیلئے موجودہ پاکستانی علاقے میں داخل ہوا۔ اس وقت موجودہ سوات، دیر، بونیر اور باجوڑ کے قبائیلی علاقوں میں قدیم بدھ مت کے پیروکار آباد تھے۔سکندر اعظم اسی وادیء کنڑ سے باجوڑ میں داخل ہوا جو گذشتہ صدیوں سے سونے کی چڑیا ہندوستان پر حملہ آور ہونے والے بیرونی لشکروں کا پسندیدہ راستہ اور ہر دور کے جنگجوؤں کیلئے محفوظ پناہ گاہ رہی ہے۔ سوات کے قریب ناؤگئی کے مقام پر مقامی پختونوں سے ہونے والی جنگ سرزمینِ پاکستان پر سکندر کی پہلی جنگ تھی۔اسی جنگ میں وہ ان قدیم پختونوں کے ہاتھوں پہلی مرتبہ زخمی بھی ہوا لیکن اسکی منظم فوج کے ساتھ نو ماہ طویل جنگ کے بعد ان غیر منظم مقامی باشندوں کی مزاحمت دم توڑ گئی۔ مابعد اس علاقے میں اس کا دوسرا بڑا مقابلہ سوات کے قریب و جوار میں آباد کوہساری جنگجو اساکینی قبائل سے ہوا۔ جس میں وہ ان بہادر جنگجوؤں کے ہاتھوں دوسری بار زخمی ہوا۔ لیکن جب جیت کے جنون میں زخموں سے بے پرواہ فاتح کے خون کی گرمی کم اور درد کی شدت بڑھی تو اسے زندگی میں پہلی بار یہ احساس ہوا کہ لوگ جس سکندراعظم کو مشتری دیوتا کا بیٹا کہتے ہیں، اس کی حیثیت دراصل ایک عام انسان سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔تاریخ کے مطابق سکندر نے جہلم کے نزدیک راجہ پورس کو شکست دی۔لیکن کچھ مبصرین کیلئے سکندر کی فتح اور پورس کو سلطنت واپس کرنے کا خود ساختہ قصہ، یونانی تاریخ نویسوں کی جھوٹی داستان ہے ۔ان مبصرین کی اس دلیل میں بڑا وزن ہے کہ جو سکندر پوری دنیا فتح کرنے کے جنون میں ہر چھوٹی بڑی ریاست کیلئے خون ریز جنگیں لڑتا رہا، وہ پورس کو شکست دینے کے بعد اسے ایک وسیع سلطنت کیسے واپس کر سکتا تھا۔ میرے مطابق پورس سے جنگ کے بعد سکندر کی فوج میں بغاوت اور واپسی کا اصرار بھی اس موقف کا گواہ ہے کہ پورس کی شکست کا قصہ دراصل سکندر کے شاہی مورخین کی سٹوری تھی ۔مستنصر حسین تارڑ کے مطابق بھی سکندر کے ہمراہ آنے والے یونانی تاریخ نویس کیسے یہ جرات کر سکتے تھے؟ کہ پوری ایمانداری سے اقرار کرتے کہ سکندر کو چناب کے کناروں پر اتنی “پھینٹی” پڑی کہ اس کی سپاہ نے نہ صرف بغاوت کی بلکہ اس کے بعد ہندوستان کے اندر جانے سے بھی انکار کر دیا تھا کہ پہلے معرکے میں ہی یہ حشر ہوا ہے تو “اللہ جانے کیا ہو گا آگے” تو “چلو چلو یونان واپس چلو”۔۔یہی تلخ تاریخ دنیا میں عظیم فاتح کہلوانے والے سکندر اعظم کی شکصیت سے وابستہ ظلم و سفاکیت کے کئی چھپے راز بھی کھولتی ہے۔ باپ کے قتل کے بعد اگرچہ اس کے علاوہ حکمرانی کا کوئی اور دعوے دار نہ تھا۔
مگر حصول اقتدار کیلئے ازل سے جاری حفظ ما تقدم کے شاہی نظریہء ضرورت کے تحت اس نے بھی ایسے تمام افراد کو چن چن کر قتل کروا دیا جو اس کے اقتدار کیلیے کوئی ممکنہ خطرہ بن سکتے تھے۔ حتی کہ اس نے اپنی ماں کے کہنے پر اپنی دودھ پیتی کمسن سوتیلی بہن تک کو قتل کر دیا۔ مگر رواج شاہی میں ایسے قتال انوکھی بات نہیں ۔ دیکھا جائے تو تخت و تاج کے حصول اور حفاظت کیلئے اپنوں اور بیگانوں کی قتل گری سے دنیا کی تاریخ بھری پڑی ہے۔حصول اقتدار اور طوالت اقتدار کی جنگ میں صرف احباب اور عزیز و اقارب کا قتل عام ہی نہیں، مذیب و مسلک اور ملک و قوم سے غداری بھی رواجِ سیاست رہا ہے۔کل عالم کی تسخیر کیلئے جنونی سکندر کے خوابوں کا ٹوٹتا اور تکبرانہ سوچ کا بے بسی کی موت پر اختتام زمانوں کیلئے عبرت انگیز ہے۔میری تحقیق کے مطابق واپس لوٹتے ہوئے سکندر کی بابل پہنچنے تک شدید علالت اور موت کی وجہ ٹائیفائیڈ نہیں، بلکہ ان زخموں میں زہر پھیلنا تھا جو اسے موجودہ سوات کے کوہساری جنگجوؤں سے جنگوں کے دوران لگے تھے اور پھر مابعد واپسی کے راستے میں بابل پہنچنے پر انہیں گہرے زخموں میں زہر اور اانفیکشن کا پھیلنا ہی اس کی جواں سالی کی موت کا سبب بنا۔شاہ بخت نصر کے محلات بابل سے اپنے وطن یونان کی طرف گامزن،خالی ہاتھ سکندر اعظم کا جنازہ ، اپنی کلائی پر کروڑوں روپے مالیت کی گھڑیاں باندھنے والے خوابیدہ حکمرانوں،سترہ لاکھ کی بزنس کلاس میں سفر کرنے والی ” غریب پرور” خوابوں والی سرکاروں، لندن کی گوری گود میں بیٹھے خود ساختہ جلا وطنوںاور خود کو اپنی تقدیر کا مالک ” آئی ایم لارڈ آف مائی اون فیٹ ” قرار دینے والے “انقلاب دانوں” کیلئے تازیانہء عبرت ہے۔وہ خدائی کے دعویدار فرعون و نمرود ہوں ، ظلم و بربریت کے نشان بخت نصر و شاہ نیرو ہوں،فتنہء حسن سے تسخیر شاہی کرنے والی ملکہ قلوپطرہ ہو یا فاتح عالم کا خواب دیکھنے والا سکندر اعظم، ان سب ظالموں کا انجام صرفبے بسی کی موت تھی۔ بے شک میرے پروردگار کا یہ فرمان ہی کافی ہے کہ ،” فَاعْتَبِرُوْا يٰـاُولِی الْاَبْصَار”۔۔پس اے دیدہِ بینا والو (اس سے) عبرت حاصل کرو ۔ ۔ ۔ ۔شک تسخیر عالم سے ہزار درجہ بہتر تسخیرِ قلوب ہے کہ محبت ہی فاتحِ عالم ہے
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔