Monday, March 13, 2017

!! زندگی !!

0 comments
!!  زندگی !!

کسی کا درد آپ محسوس کرلیں اور پھر افسردگی آپ کے حواس کو جکڑ لے۔ یہ بات سمجھ آتی ہے۔
آپ اپنی ہی ذات سے پھوٹنے والے درد کو رویئے پہ طاری کر لیں۔ نگاہوں اور سماعتوں پہ قہر بن کے ٹوٹ جائیں۔ یہ بات سمجھ نہیں آتی۔

سمجھے نہیں شاید آپ۔۔!!!

عرض کرتا ہوں۔!!

جو میرے دکھ ہیں وہ میرے برتاؤ کی عنایتیں ہیں۔ کسی کی بے التفاتی کی سزائیں اب میں کاٹوں۔؟ خوش کامیوں میں اذیتوں کے رنگ بکھیردوں۔؟ ظرافت کی رگ کاٹ ڈالوں۔؟ لطافت کی حس کو آگ لگادوں۔؟ شگفتگی کو کرختگیوں کی جھلستی ہوئی بھٹیوں میں دھکیل دوں۔؟ شائستگی اور شستگی میں زہر گھول دوں ۔؟

میرا مطلب ہے۔۔!!

کیا کوئی اس لیئے وارد ہوا تھا ایک شبِ وصل عطا ہواور پھردل بے سمت رعنائیوں کے طواف پہ نکل جائے۔ ؟اور اگر شب ِ ہجر نے اپنے مہیب سائے پھیلا دیئے تو جینے سے انکار کر دیا جائے۔؟ یہ خود پسندی اور خود فریبی کی کتنی بڑی مثال ہوسکتی ہے اس پہ غور کیا ہے کبھی۔؟

میں غلط ہوں۔۔؟؟

تو آپ خود سوچیئے نا صاحب، کہ آپ سے وابستہ وہی ایک شخص تھا۔؟ یعنی کہ آپ کے لبوں پہ بہت قرینے سے مسکراہٹیں اس لیئےسجائی گئی تھیں کہ اسی کی نگاہِ ناز کو آسودگی پہنچے۔؟ آپ کی کشتِ ظرافت میں لفظوں کی غنچے اس لیئے مہکائے گئے تھے کہ بس متعین ذوق کی تسکین ہوا کرے۔؟ اداؤں میں شوخیوں کا رنگ اس لیئے بھرا گیا تھا کہ کسی شبستان میں شوق کے مشکبو دیئے جلے جائیں۔؟ وہ شبستان کہ جس کی سرمستیاں آپ سے شروع ہوکر آپ ہی پر ختم۔۔ وہ دیئے کہ جس کی مشکباریاں آپ ہی کے روح میں حشر برپا کر کے آپ ہی کے من میں دم توڑ جائیں۔ بس۔۔؟؟

اگر ایسا ہی ہے۔۔۔!!

تو پھر زندگی کے ہر قدم پہ جو لوگ ہم سے وابستہ ہوئے، کیا ان سے جرم سرزد ہوا۔ ؟ اگر ہاں، تو کیسے۔؟؟ اگر نہیں، تو پھر ہم ان کی قربتوں کو اپنی ناکام حسرتوں کی دہکائی جہنم میں جلاکر بھسم کیوں کردیتے ہیں۔؟ جو دھواں میرے ارمانوں کی راکھ سے اٹھتا ہے اس سے میں زندگی کے ہر روشن پہلو کو آلودہ کیوں کرتا ہوں۔؟؟ خواہشوں کے اوطاق میں اگر ایک دیا بجھ گیا، تو گرد وپیش میں پھیلی ہوئی کرنوں کا خون کرنے کا کیا مجھے حق حاصل ہوگیا۔؟؟

سنیں تو صاحب۔۔!!!

زندگی کا حق یہ ہے کہ اسے جیا جائے۔ افسردگیوں کی بھینٹ چڑھ کر امکان کی ہر لو کو بجھا دینا بہت آسان ہے۔ اذیتوں کے ہجوم میں جینے کی وجہ تلاش لانا اک ذرا خونِ جگر مانگتا ہے۔ المیہ مگر یہ ہے کہ افسردہ حالی اور کرب بیانی کو ہم نے دانشمندی کی نمایاں علامات میں سے سمجھ لیا۔ نہیں صاحب، ایسا نہیں ہے۔ بکھرے بال اور ادھڑے گریبان نگاہوں میں میں ایک بھیگا ہوا ماحول تو تخلیق کرلیتے ہیں، مگر طبعیتوں میں تعمیر کا ایک ذرہ بھی پیدا نہیں کر پاتے۔ ماضی کی وہ ساری نوحہ گریاں جو آپ کی ذات کے گرد گھومتی ہیں، وہ مستقبل کے مزاج میں ایک جنجھلاہٹ پیدا کرتی ہیں۔ وہ مستقبل جس کی تعمیر میں اپنے رویئے کا جھونکنے سوا ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں ہے۔

سو۔۔!!!!

جیا جائے۔زندگی کی ایذا رسانیوں کی سزا انہیں نہ دی جائے،جو ہم سے وابستہ ہوچکے۔ ماتھے پہ خواشگواریوں کو بسانا ایک طبعی ضرورت تو ہے ہی، مگر اس سے بڑھ کر یہ ایک سماجی فرض ہے۔ اور یہ کہ فرض اپنے اظہار کیلئے آمادگیوں کی طرف نہیں دیکھتا۔ !!!

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔