Monday, March 13, 2017

!! صدقے کے متعلق !!

0 comments


!! صدقے کے متعلق !!
اگر صدقہ کرنے والا جان لے اور سمجھ لے کہ اس کا صدقہ فقیر کے ہاتھ میں جانے سے پہلے اللہ کے ہاتھ میں جاتا ہے تو یقینا دینے والے کو لذت، لینے والے سے کہیں زیادہ ہو گی.
کیا آپ کو صدقہ کے فوائد معلوم ہیں؟
فوائد نمبر 17، 18، 19 کو خاص توجہ سے پڑهیے گآ :-
تو سن لیں !
صدقہ دینے والے بهی اور جو اس کا سبب بنتے ہیں وہ بهی!!!
صدقہ جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے:1
صدقہ اعمال صالحہ میں افضل عمل ہے ، اور سب سے افضل صدقہ کهانا کهلانا ہے:2
صدقہ قیامت کے دن سایہ ہو گا، اور اپنے دینے والے کو آگ سے خلاصی دلائے گا:3
صدقہ اللہ جل جلالہ کے غضب کو ٹهنڈا کرتا ہے، اور قبر کی گرمی کی ٹهنڈک کا سامان ہے:4
5:میت کے لیے بہترین ہدیہ اور سب سے زیادہ نفع بخش چیز صدقہ ہے، اور صدقہ کے ثواب کو اللہ تعالی بڑهاتے رہتے ہیں
6:صدقہ مصفی ہے، نفس کی پاکی کا ذریعہ اور نیکیوں کو بڑهاتا ہے
7. 7:صدقہ قیامت کے دن صدقہ کرنے والے کے چہرے کا سرور اور تازگی کا سبب ہے
8:صدقہ قیامت کی ہولناکی کے خوف سے امان ہے، اور گزرے ہوئے پر افسوس نہیں ہونے دیتا
9:صدقہ گناہوں کی مغفرت کا سبب اور سیئات کا کفارہ ہے۔
10::صدقہ خوشخبری ہے حسن خاتمہ کی، اور فرشتوں کی دعا کا سبب ہ
11:صدقہ دینے والا بہترین لوگوں میں سے ہے، اور اس کا ثواب ہر اس شخص کو ملتا ہے جو اس میں کسی طور پر بهی شریک ہوں
12:صدقہ دینے والے سے خیر کثیر اور بڑے اجر کا وعدہ ہے
13:صدقہ کرنا جود و کرم اور سخاوت کی علامت ہے
14:صدقہ دعاوں کے قبول ہونے اور مشکلوں سے نکالنے کا ذریعہ ہے
15:صدقہ بلاء(مصیبت) کو دور کرتا ہے، اور دنیا میں ستر دروازے برائی کے بند کرتا ہے
16:صدقہ عمر میں اور مال میں اضافے کا سبب ہے، کامیابی اور رزق کا سبب ہے
17: خرچ کرنا آدمی کو متقین کی صف میں شامل کردیتا ہے، اور صدقہ کرنے والے سے اللہ کی مخلوق محبت کرتی ہے
18:صدقہ علاج بهی ہے دوا بهی اور شفاء بهی
19:صدقہ آگ سے جلنے، غرق ہونے، چوری اور بری موت کو روکتا ہے
20:صدقہ کا اجرملتا ہے، چاہے جانوروں اور پرندوں پر ہی کیوں نہ ہو
٭آخری بات
بہترین صدقہ اس وقت یہ ہے کہ آپ اس میسیج کو صدقہ کی نیت سے آگے پھیلا   دیں

!! رول ماڈؒل !!

0 comments
!! رول ماڈؒل !!

آج 21ویں صدی کے مسلمانوں کے رول ماڈل اوباما ، مائیکل جیکسن ، میڈونا ، شکیرا ، ریحانا ، ٹوم کروز ، جیمز بانڈ ، اکشے کمار ، شارح خان ، سلمان خان ، وغیرہ ہیں

لیکن میرا بیسٹ رول ماڈل حضرت محـــــمد ﷺ ھے ، ایک ایسا رول ماڈل جس کی طرح کا نہ صفحہ ھستی نے کھبی دیکھا اور نہ دیکھے گی ، ، ،!!
بدر کی جنگ کی مثال لیں ، مسلمان 313 تھے اور کفار کی تعداد 1000 تھی، کمانڈر اس فوج کے حضرت محمد ﷺ تھے ، کفار کو اس جنگ میں کریش کردیا گیا،
احد کو دیکھ لیں مسلمانوں کی تعداد 700 جبکہ کفار 30000 تعداد میں تھے ایک بار پھر محمد ﷺ کمانڈر تھے کفار کو کریش کردیا گیا ،
احزاب کو دئکھئیں مسلمانوں کی تعداد 2000 تھی جبکہ کفار کی تعداد 24000 تھی ایک بار پھر کمانڈر حضرت محمد ﷺ تھے کفار کی اتنی کثیر تعداد کو ایک بار پھر کریش کردیا گیا
تبوک کو دیکھ لیں ، مسلمانوں کی تعداد 30 ھزار تھی جبکہ کفار کئ ھزار تعداد میں تھے۔ایک بار پھر مسلمانوں کے کمانڈر حضرت محمد ﷺ تھے لیکن کفار کو منہ کی کھانی پڑی اور کفار کو کریش ھونا پڑا ، ، ،جب کھبی کفار نے دیکھا کہ کمانڈر محمد ﷺ کی آرمی آرہی ھے انھوں نے گھوڑوں کے منہ پھیرے یو ٹرن لیا اوربھاگ گیئے،
فتح مکہ کو دیکھ لیں ، ، تمام کے تمام مجرموں اور قیدیوں کو عام معاف کیا گیا ، ، تمام جنگوں پر نطر ڈالیں تو چاھے ان کے کمانڈر حضرت محمد ﷺ رہے
یا کوی صحابی یا کوی تابعی یا کوی اعظیم جرنیل تما جنگی قیدیوں کو معاف کیا گیا 
یہی تعلیمات ھے تمام دنیا کے لیے رول ماڈل وھی بندہ ھے رول ماڈل تمام کے تمام عالم کے لیئے  
میرا رول ماڈل میرا نبی حضرت محمد ﷺ ہے





!! ایمان کی حرارت !!

0 comments
!! ایمان کی حرارت !!

وہ ایک بااختیار بادشاہ تھا ملک کے پورے خزانے پر اس کا اختیار تھا لیکن اس کے باوجود خزانے سے وہ ایک پیسہ نہیں لے رہا تھا اس کے گھر کی گزر اوقات مال غنیمت پر ہوتی یا اپنے کسی کام کی اجرت پر ہوتی گھر میں تنگی ترشی رہتی جس کی وجہ سے ان کی بیوی کو ہر وقت تنگی کی شکایت رہتی ایک دن اس نے اپنے شوہر سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ ”مصر اور شام کا علاقہ آپ کے زیرنگین ہے اور گھر کا یہ عالم ہے کہ اس میں آسودگی کا نام و نشان تک نہیں”بادشادہ نے اپنی ملکہ کی بات تحمل سے سنی جب ملکہ کی بات ختم ہوئی توجواب دیا ”بیگم خزانہ رعایاکا ہے اور مجھے اس کی چوکیداری پر متعین کیا گیا ہے میں اس خزانے کا مالک نہیں اس کا نگراںاور محافظ ہو ںکیا تم چاہتی ہو کہ میں تمہاری خوشی اور گھر کی آسودگی کے لیے خیانت اور بدیانتی کرکے اپنے لیے جہنم میں ٹھکانہ بنالوں؟”بادشادہ کی بیوی کو اپنے شوہر کے اس جواب سے بڑی شرمندگی ہوئی اور وہ دیر تک ندامت سے آنسو بہاتی رہی۔

اس بادشادہ کی یہ بات اور ان کے اس کردار کو تاریخ نے ہمیشہ کے لیے اپنے اندر محفوظ کرلیا آج بھی جب دنیا تاریخ دیکھتی ہے تو ان کے اس کردار کو خراج تحسین پیش کرتی ہے یہ بادشاہ کون تھا آپ اگر تھوڑا ذہن پر زور دیں توآپ کوان کا نام آپ کے ذہن میں آجائے گا یاد آیا نہیں توچلیں ہم آپ کا زیادہ امتحان نہیں لیتے بتائے دیتے ہیں یہ بادشادہ نورالدین زنگی تھاوہ فروری 1118 میں پیدا ہوئے 1146 میں اپنے بادشاہ باپ عماد الدین زنگی کی وفات کے بعد تخت نشین ہوئے ان کا مکمل نام المالک العادل نور الدین ابو القاسم محمود ابن عماد الدین زنگی تھا اس نے 15مئی 1174 تک 28 سال مصرو شام پربلاشرکت غیرے حکومت کی حشاشین نے اسے زہر دیاجس سے ان کے گلے میں سوزش پیدا ہو گئی جو ان کی موت کا باعث بنی انتقال کے وقت ان کی عمر 58سال تھی اس بادشاہ نے تاریخ میں بڑا نام پیدا کیا فتوحات اور کارناموں کے علاوہ ان کے رفاہ عامہ اور فلاحی کام بھی بہت زیادہ ہیں نور الدین صرف ایک فاتح نہیں بلکہ ایک شفیق حکمران اور علم پرور بادشاہ تھا۔

اس نے سلطنت میں مدرسوں اور ہسپتالوں کا جال بچھا دیاتھا۔ ان کے انصاف کے قصے دور دور تک مشہور تھے انہوں نے بیت المال کا روپیہ کبھی اپنی ذات پر خرچ نہیں کیا۔ مال غنیمت سے اس نے چند دکانیں خرید لیں تھیں جن کے کرائے سے وہ اپنا خرچ پورا کرتا تھا۔ اس بادشاہ نے اپنے لیے بڑے بڑے محل تعمیر نہیں کئے بلکہ بیت المال کا پیسہ مدرسوں، شفاخانوں اور مسافر خانوں کے قائم کرنے اور رفاہ عامہ کے دیگر کاموں میں صرف کیا۔ دمشق میں اس نے ایک شاندار شفاخانہ قائم کیا تھا جس کی دنیا میں مثال نہ تھی اس میں مریضوں کو دوا بھی مفت دی جاتی تھی اور کھانے کا رہنے کا خرچ بھی حکومت کی طرف سے ادا کیا جاتا تھا۔

نور الدین نے تمام ناجائز ٹیکس موقوف کردئیے تھے۔ وہ مظلوموں کی شکایت خود سنتا اور اس کی تفتیش کرتا تھاان کی ان خوبیوں اور کارناموں کی وجہ سے اس زمانے کے ایک مورخ ابن اثیر نے لکھا ہے کہ میں نے اسلامی عہد کے حکمرانوں سے لے کر اس وقت تک کے تمام بادشاہوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا لیکن خلفائے راشدین اور عمر بن عبدالعزیز کے سوا نور الدین سے زیادہ بہتر فرمانروا میری نظر سے نہیں گزرا۔ وہ ایک وسیع خطے کے حکمران تھے اس قدر وسیع سلطنت کے خزانے میںزر وجوہرات کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے اتنے بڑے ملک پر ایک بادشاہ حکمران ہو تو اس کااپنا ایک جاو جلال ہوتاہے ایسے ملک کے باشادہ سے کوئی یہ پوچھنے کی بھی جرات نہیں کرسکتا ہے کہ وہ خزانے کواپنے مصرف میں نہیں لاسکتا۔وہ خیانت اور بدیانتی سے ڈرتا تھا اور بادشادہ ہونے کے باوجود ان کی قناحت کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنی گزر اوقات کے لیے خود اپنے ہاتھ سے کام کرکے پیسے کماتا تھا خزانے سے کوئی وظیفہ نہیں لیتا تھا حالانکہ اسے یہ حق حاصل تھا اسلامی تاریخ میں ایسے بے شمار واقعات موجود ہیں جس کی مثالیں دی جاسکتی ہیں لیکن ان مثالوں کو جب ہم آج کی دنیا میں دیکھتے ہیں تو ہمیں اپنا دامن تہی دست نظر آتا ہے جو کردار ہمارے اسلاف نے ہمارے لئے چھوڑا ہے اور ان کا جو کردار رہا ہے ہم میں اس کا ذرا بھر بھی نظر نہیں آرہا ہمارے اسلاف کے چھوڑے ہوئے کردار اور ان کی مثالوں پر ہم نہیں بلکہ اس پر آج کے زمانے میں مغرب عمل کر رہا ہے۔

ہم اگر اسلامی دنیا کی بجائے صرف اپنے ملک پر ہی ایک نظر ڈالیں تو1947ء کو آزادی حاصل کرنے کے بعد سے ان ستر سالوں میں کسی ایک بھی حکمران کی مثال ہم نہیں دے سکتے نہ ہی کسی حکمران کے کردار کو مثالی قرار دے سکتے ہیں سواء قائداعظم کے ۔مسلمانوں کے لیے اسلام کے نام پر قائم اس ملک میں ہمارے حکمرانوں نے اسلام کے کسی ایک بھی اصول پر عمل نہیں کیا جو بھی آیا اس نے جائز و ناجائز ہر طریقے سے صرف اپنے اقتدار کو دوام دیا’ اپنے اثاثے بنائے اور اپنے مفادات کا خیال کیا کسی نے اسلام کے نام پر قوم کو بے وقوف بنایا کسی نے قوم پرستی کا پروپیگنڈا کرکے اپنا الو سیدھا کیا کوئی سوشلزم کی آڑ لے کے آگے بڑھا کسی نے روٹی کپڑا اور مکان کا فریب دے کر اپنا مطلب نکالا غرض جو بھی آیا کسی نے جاگیر میں اضافہ کیا کسی نے کارخانوں کی چین بنا ڈالی کوئی بیرون ملک فلیٹ خریدنے میں لگا رہا کسی نے سرئے محل اپنے نام کرلیے ‘کسی نے آف شور کمپنیاں بنا ڈالیں اور کوئی پانامہ لیکس کا شکار ہوگیا کوئی ملائیشیا میں ہوٹل بنا رہا ہے کسی نے دبئی میں ٹاور بنا لیے کوئی بنگلہ دیش میں فیکٹریاں بنا رہا ہے ‘کسی نے بھارت میں کارخانے کھول لیے جو باقی رہ گئے انہوں نے سوئس بینکوں کو بھرنا شروع کر دیا۔

دعوے سب ملک و قوم کی خدمت کے کرتے ہیں لیکن وہ صرف اپنی ہی خدمت کرتے ہیں وہ ہم پر اقتدار کے لیے پیدا ہوئے ہیں ہم ان کی غلامی کے لیے (اور شاہد وولٹیئر نے ہماری جیسی قوم کے لیے ہی یہ کہا ہے کہ ان بے وقوفوں کو آزاد کرانا مشکل ہے جو اپنی زنجیروں کی عزت کرتے ہیں )ہم شاہد وولٹیئرکے انہی بے وقوفوں میں شامل ہیں اسی لیے ان حکمرانوں اور سیاستدانوں کے جلسوں اور دھرنوں کی رونق بڑھانے کے لیے اور زندہ باداور مردوہ باد میں لگے ہوئے ہیں ہر پانچ سال بعد ہم عہد کرتے ہیں کہ کرپٹ حکمرانوں سے اس بار نجات حاصل کریں گے لیکن پھر انہی کرپٹ حکمرانوں کا ساتھ بھی دیتے ہیں انہیں کامیاب کرکے اقتدار کی کرسی تک پہنچانے میں اپنا کردار بھی ادا کرتے ہیں اور جب وہ ہم پر مسلط ہوتے ہیں پھر فریاد بھی کرنے لگتے ہیں دنیا چاند پر پہنچ گئی اور اب مریخ پر زندگی کے آثار تلاش کرنے میں لگی ہوئی ہے لوگ مریخ پر جانے کے لیے ابھی سے ”بکنگ ” کررہے ہیں جبکہ ہم آج بھی اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں اور ہمارے حکمران ہمیں2018 تک ان اندھیروں سے نکالنے کی ”خوشخبری” سنا رہے ہیں جس کو ہمارے حکمران خوشخبری قرار دے رہے ہیں اس پر ہمیں ماتم کرنا چاہیے تھا لیکن ہم پھر بھی خوش ہوررہے ہیں بغلیں بجا رہے ہیں اندھیروں سے نکلنے کی امید پر آس لگائے بیٹھے ہیں۔

کام کرنے والوں نے پوری دنیا کو ایک چھوٹی سی گھڑی میں بند کر دیا لیکن ہم آج بھی صاف پانی کے لیے ترس رہے ہیں ‘بیمار ہوجائیں تو علاج کے لیے ترستے ہیں ‘ہسپتال جاتے ہیں تو سہولیات کے لیے ترستے ہیں’ہم آج بھی کٹارہ گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں جہاں رہتے ہیں وہاں گندگی کے ڈھیر لگے رہتے ہیں ‘شعور نام کی شے نہیں ہم میں ۔ حکمران تعلیم عام کرنے کے دعوے تو بہت کرتے ہیں لیکن عملاََ وہ اس کے برعکس اقدامات اٹھاتے ہیں تاکہ لوگوں میں شعور بیدار نہ ہو کیونکہ اگر لوگوں میں شعور بیدار ہوا تو پھر ان کی چودھراہٹ کہاں رہے گی ‘ان کے در پر حاضری کون دے گا انہیں عام لوگوں کی تعلیم سے کیا غرض کیونکہ ان کے بچے لندن اور امریکہ میں پڑھتے ہیں عام لوگوں کو تعلیم کے ذریعے شعور دیکر وہ لوگوں کو حقیرسمجھ کر غرور و تکبر کس طرح کریں گے آج ہم جمہوریت کا دعوی کرتے ہیں لیکن ہمارے اعمال سارے بادشاہوں اور شہنشاہوں والے ہیں اور انہی بادشاہوں اور شہنشاہوں کے سارے رشتہ دار وزارتوں اور اہم حکومتی عہدوں پر براجمان ہوتے ہیں انہی کے لیے سارے حکومتی وسائل مختص ہوتے ہیں اسی لیے فاروق قیصر کہتے ہیں ”یہ وطن تمہارا ہے تم ہو سیاستدان اس کے۔ جاگیر تمہاری ہے تم ہو پاسباں اس کے۔ اس زمین کے نقشے پہ قبضہ بھی تمہارا ہے ۔جو بینک نے معاف کیا وہ قرضہ بھی تمہارا ہے ۔یہ عوام تو بے بس ہیں تم غلام انہیں سمجھو۔جاگیر عطا کی ہے انگریز نے یہ تم کو ۔اس طرف خوشحالی ہے تم ہو درمیاں اس کے”۔آج اس ملک کی یہ حالت ہے کہ حکمرانوں کی وجہ سے ہمارے سارے سیاستدان کرپٹ اور اس کا ہر ادارہ تنزلی کا شکار ہے۔ آج اس ملک میں نام نہاد مولوی لڑائیاں کررہے ہیں اور فرقے بنا رہے ہیں۔

جاہل دین سکھا رہے ہیں غیر ملکی جاسوس مسجدوں پر قبضہ کر چکے ہیں اور ہم بڑی معصومیت سے انہیں اپنا رہبر سمجھ رہے ہیں پوپ اسٹارز تبلیغ کررہے ہیں۔ کھلاڑی سیاست کررہے ہیں وکیل پولیس کو پھینٹی لگا رہے ہیں ماڈلز اسمگلنگ کررہی ہیں اور اسمگلرعمرے کررہے ہیں فوج ملک چلا رہی ہے اور حکمران اور سیاستدان کاروبار چلا رہے ہیں اور عوام بے چارے حسرت سے ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہے ہیں ہمارے اسلاف ہمارے لیے اپنے کردار کی تاریخ چھوڑ رہے تھے اور ہمارے حکمران سیاستدان اور رہنمائی کا دعوی کرنے والوں کے علاوہ نام نہاد مذہبی پیشوا خود تاریخ بنا رہے ہیں بلکہ تاریخ کو تاریک کررہے ہیں وہ جو تاریخ بنا رہے ہیں شاہد ہی آئندہ نسلیں انہیں خراج تحسین پیش کریں بلکہ شنید ہے کہ وہ اس موجودہ نسل کو ہی گالیاں دیںا گر ہم نے ان گالیوں سے بچنا ہے اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنی ہے تو ہمیں اپنی اصلاح کرنی ہو گی😊

!! محل اور بادشاہ !!

0 comments
!! محل اور بادشاہ !!

بادشاہ نے بہت ہی عالیشان محل تعمیر کیا جو دیکھتا بس دیکھتا ہی رہ جاتا محل نہیں تھا جنت کا ٹُکڑا تھا غرضیکہ جو بھی آتا دیکھتا اور ششدر رہ جاتا مگر بادشاہ نے عجیب شرط رکھ دی جو شخص محل کو ایک متعین وقت میں دیکھے گا پورا محل اُسے دے دیا جائے گا لیکن جو شخص اُس متعین وقت میں نہیں دیکھ پائے گا اُس کا سر قلم کردیا جائے گا بہت سارے سر پھرے نوجوان منع کرنے کے باوجود جان گنوا بیٹھے جو بھی جاتا پورا کیا آدھامحل بھی نہ دیکھ پاتا کے وقت پورا ہوجاتا اور اجل کا پیغام لیکر ہی آتا اس بات کا شہرہ بہت دُور تک پہنچ گیا ایک نوجوان دیہاتی کے کانوں تک بھی یہ خبر اُڑتی اُڑتی پہنچ گئی نوجوان نے جب پوری بات سُنی تصدیق کی اور بادشاہ کے محل پہنچ گیا درباری وزیروں مشیروں اور جلادوں نے بھی منع کیا مگر وہ دُھن کا پکا نکلا اجازت لی اور متعین وقت دیدیا گیا نوجوان محل میں پہنچا دیا گیا نوجوان نے ایک سرے لیکر دوسرے سرے تک در و دیوار کمرے راہداریاں فانوس قمقمے قالین صوفے تالاب حوض باغ پگڈنڈیاں الغرض ایک ایک چیز کڑے پہرے میں دیکھ لی اور وقت ختم ہونے سے پہلے بادشاہ کے روبرو پیش کردیا گیا بادشاہ اور تمام درباری گویا سناٹے میں آگئے بادشاہ نے کہا نوجوان میں اپنی شرط پر قائم ہوں محل اب تیرا ہے مگر یہ بات سمجھ نہیں آئی وقت ختم ہونے سے پہلے طے شدہ وقت میں اتنا خوبصورت جسکے درودیوار کیاریاں باغات حوض تالاب کمرے رہائشیں اتنی خوبصورت ہیں تم سے پہلے جو گیا کوئی باغ مین پہنچ کر باغ کے خوبصورتی میں کھو گیا کوئی کیاریاں کوئی قمقے کوئی درودیوار کے نقش ونگار میں کھوگیا اور وقت ختم کردیا اور جان گنوا بیٹھا تم نے پورا وقت بھی نہیں لگایا 
اور محل بھی دیکھ لیا نوجوان نے بادشاہ کی بات سُن کر بھرپور قہقہ لگایا اور کہا بادشاہ سلامت مجھ سے پہلے جتنے لوگ بھی محل دیکھنے آئے سب کے سب پرلے درجے کے بے وقوف تھے جو محل کی خوبصورتی میں کھو گئے اور جانیں گنواتے رہے بادشاہ سلامت محل کے صدر دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی میں نے اپنی آنکھیں نیم وا کرلی تھیں اور پورا محل آنکھیں بند کر کے دیکھ آیا میں اتنا بے وقوف نہیں جو محل کی خوبصورتی میں کھو کر اپنی جان گنوا دیتا بادشاہ سلامت اب محل میری ملکیت ہے میں اُسے جی بھر کر دیکھتا رہونگا
صاحبو " وہ محل دُنیا ہے بادشاہ سلامت وہ کریم ذات ہے 
اور محل کے خوبصورتی میں کھو جانے والے ہم انسان ہیں اور نیم وا آنکھ والے وہ دانا اور کامیاب انسان ہیں جو اس دُنیا کی خوبصورتی میں کھو نہیں جاتے بلکہ بامقصد زندگی گزار کر اللہ کے حضور پہنچ جاتے ہیں.

!! دجال !!

0 comments
!! دجال !!

دجال یہودیوں کی نسل سے ہوگا جس کا قد ٹھگنا ہو گا ،دونوں پاؤں ٹیڑھے ہو نگے ۔ جسم پر بالوں کی بھر مار ہوگی ،

رنگ سرخ یا گندمی ہو گا سر کے بال حبشیوں کی طرح ہونگے،ناک چونچ کی طرح ہو گی، بائیں آنکھ سے کانا ہو گا دائیں آنکھ میں انگور کے بقدر ناخنہ ہو گا۔ اس کے ماتھے پر ک، ا، ف، ر لکھا ہوگا، جسے ہر مسلمان بآسانی پڑھ سکے گا ،
اس کی آنکھ سوئی ہوگی مگر دل جاگتا رہے گا شروع میں وہ ایمان واصلاح کا دعویٰ لے کر اٹھے گا، لیکن جیسے ہی تھوڑے بہت متبعین میسر ہوں گے وہ نبوت اور پھر خدائی کا دعویٰ کرے گا۔ اس کی سواری بھی اتنی بڑی ہو گی کہ اسکے دونوں کانوں کا درمیانی فاصلہ ہی چالیس گز کاہو گا .
۔ایک قدم تاحد نگاہ مسافت کو طے کرلے گا دجال پکا جھوٹا اور اعلی درجہ کا شعبدے باز ہو گا، اس کے پاس غلوں کے ڈھیر اور پانی کی نہریں ہو نگی، زمین میں مدفون تمام خزانے باہر نکل کر شہد کی مکھیوں کی مانند اس کے ساتھ ہولیں گے ۔جو قبیلہ اس کی خدائی پر ایمان لائے گادجال اس پر بارش برسائے گا جس کی وجہ سے کھانے پینے کی چیزیں ابل پڑیں گے،درختوں پر پھل آجائیں گے،

کچھ لوگوں سے آکر کہے گا کہ اگر میں تمہارے ماں باپوں کو زندہ کر دوں تو تم کیا میری خدائی کا اقرار کرو گے؟ لوگ اثبات میں جواب دیں گے ۔اب دجال کے شیطان ان لوگوں کے ماں باپوں کی شکل لے کر نمودار ہوں گے نتیجتاً بہت سے افراد ایمان سے ہاتھ دھوبیٹھیں گے۔ اس کی رفتار آندھیوں سے زیادہ تیز اور بالوں کی طرح رواں ہو گی، وہ کرشموں اور شعبدہ بازیوں کو لے کر دنیا کے ہر ہر چپہ کو روندے گا، تمام دشمنانِ اسلام اور دنیا بھر کے یہودی امت مسلمہ کے بغض میں اس کی پشت پناہی کر رہے ہوں گے۔ وہ مکہ معظمہ میں گھسنا چاہے گا مگر فرشتوں کی پہراداری کی وجہ سے ادھر گھس نہ پائے گا اس لئے نامراد وذلیل ہو کر واپس مدینہ منورہ کا رخ کرے گا،

اس وقت مدینہ منورہ کے سات دروازے ہوں گے اور ہر دروازے پر فرشتوں کا پہرا ہو گا ۔ لہذا یہاں پر بھی منہ کی کھانی پڑے گی۔انہی دنوں مدینہ منورہ میں تین مرتبہ زلزلہ آئے گا جس سے گھبرا کر بہت سارے بے دین شہر سے نکل کر بھاگ نکلیں گے، باہر نکلتے ہیں دجال انہیں لقمہ تر کی طرح نگل لے گا ۔

آخر ایک بزرگ اس سے بحث و مناظرہ کے لئے نکلیں گے اورخاص اس کے لشکر میں پہنچ کر اس کی بابت دریافت کریں گے لوگوں کو اس کی باتیں شاق گزریں گی لہذا اس کے قتل کا فیصلہ کریں گے ،مگر چند افراد آڑے آکر یہ کہہ کر روک دیں گے کہ ہمارے خدا دجال کی ا
جازت کے بغیر اس کو قتل نہیں کیا جاسکتا ہے،
،چنانچہ اس بزرگ کو دجال کے دربار میں حاضر کیا جائے گا ۔جہاں پہنچ کر یہ بزرگ چلا اٹھے گا کہ میں نے پہچان لیا کہ تو ہی دجال ملعون ہے۔

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تیرے ہی خروج کی خبر دی تھی۔دجال اس خبر کو سنتے ہی آپے سے باہر ہوجائے گا اوراس کو قتل کرنے کا فیصلہ کرے گا درباری فوراً اس کے دو ٹکڑے کردیں گے،
دجال اپنے حواریوں سے کہے گا کہ اب اگر میں اس کو دوبارہ زندہ کردو تو کیا تم کو میری خدائی کا پختہ یقین ہو جائے گا ۔یہ دجالی گروپ کہے گا کہ ہم تو پہلے ہی سے آپ کو خدا مانتے ہوئے آرہے ہیں، البتہ اس معجزہ سے ہمارے یقین میں اور اضافہ ہو جائے گا ۔

دجال اس بزرگ کے دونوں ٹکڑوں کو اکٹھا کر کے زندہ کرنے کی کوشش کرے گا ادھر وہ بزرگ بوجہ حکم الہی کھڑے ہو جائیں گے اور کہیں گے اب تو مجھے اور زیادہ یقین آگیا کہ تو ہی دجال ملعون ہے وہ جھنجھلا کر دوبارہ انہیں ذبح کرنا چاہے گا لیکن اب اسکی قدرت سلب کر لی جائے گی دجال شرمندہ ہوکر انہیں اپنی جہنم میں جھونک دے گا لیکن یہ آگ ان کے لئے ٹھنڈی اور گلزار بن جائے گی،

۔اس کے بعد وہ شام کا رخ کرے گا لیکن دمشق پہنچنے سے پہلے ہی حضرت مہدی علیہ السلام وہاں آچکے ہوں گے ۔دجال دنیا میں صرف چالیس دن رہے گا ایک دن ایک سال دوسرا ایک مہینہ اور تیسرا ایک ہفتہ کے برابر ہوگا بقیہ معمول کے مطابق ہوں گے،

امام مہدی علیہ السلام دمشق پہنچتے ہی زور وشور سے جنگ کی تیاری شروع کردیں گے لیکن صورتِ حال بظاہر دجال کے حق میں ہوگی،کیونکہ وہ اپنے مادی وافرادی طاقت کے بل پر پوری دنیا میںدھاک بٹھا چکا ہو گا اس لئے عسکری طاقت کے اعتبار سے تو اس کی شکست بظاہر مشکل ہو گی مگر اللہ کی تائید اور نصرت کا سب کو یقین ہوگا ۔
حضرت مہدی علیہ السلام اور تمام مسلمان اسی امید کے ساتھ دمشق میں دجال کے ساتھ جنگ کی تیاریوں میں ہوں گے ۔تمام مسلمان نمازوں کی ادائیگی دمشق کی قدیم شہرہ آفاق مسجد میں جامع اموی میں ادا کرتے ہوں گے ۔ ملی شیرازہ ،لشکر کی ترتیب اور یہودیوں کے خلاف صف بندی کو منظم کرنے کے ساتھ ساتھ مہدی علیہ السلام دمشق میں اس کو اپنی فوجی سرگرمیوں کا مرکز بنائیں گے۔ اور اس وقت یہی مقام ان کا ہیڈ کواٹر ہو گا۔امام مہدی علیہ السلام ایک دن نماز پڑھانے کے لئے مصلے کی طرف بڑھیں گے

،تو عین اسی وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزو ل ہوگا،
نماز سے فارغ ہو کر لوگ دجال کے مقابلے کے لئے نکلیں گے دجال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھ کر ایسا گھلنے لگے گا جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔ پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام آگے بڑھ کر اس کو قتل کردیں گے اور حالت یہ ہوگی کہ شجر وحجر آواز لگائیں گے کہ اے روح اللہ میرے پیچھے یہودی چھپاہے ،چنانچہ وہ دجال کے چیلوں میں سے کسی کو بھی نہ چھوڑیں گے۔

پھر وہ صلیب کو توڑیں گے یعنی صلیب پرستی ختم کریں گے خنزیر کو قتل کر کے جنگ کا خاتمہ کریں گے اور اس کے بعد مال ودولت کی ایسی فراوانی ہوگی کہ اسے کوئی قبول نہ کرے گا اور لوگ ایسے دین دار ہو جائیں گے کہ ان کے نزدیک ایک سجدہ دنیا و مافیھا سے بہتر ہو گا ۔
(مسلم، ابن ماجہ، ابوداود، ترمذی، طبرانی، حاکم، احمد)

!!عزرائیل سے ابلیس تک !!

0 comments
!!عزرائیل سے ابلیس تک !!

ابلیس جس کو شیطان کہا جاتا ہے۔ یہ فرشتہ نہیں تھا بلکہ جن تھا جو آگ سے پیدا ہوا تھا۔ لیکن یہ فرشتوں کے ساتھ ساتھ ملا جلا رہتا تھا اور دربارِ خداوندی میں بہت مقرب اور بڑے بڑے بلند درجات و مراتب سے سرفراز تھا۔ تفاسیر میں ہے کہ ابلیس سب سے پہلے جن یعنی تمام جنات کے باپ "مارج" کے پوتے کا بیٹا تھا۔
حضرت کعب احبار رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ابلیس چالیس ہزار برس تک جنت کا خزانچی رہا اور اَسّی ہزار برس تک ملائکہ کا ساتھی رہا اور بیس ہزار برس تک ملائکہ کو وعظ سنا تا رہا اور تیس ہزار برس تک مقربین کا سردار رہا اور ایک ہزار برس تک روحانین کی سرداری کے منصب پر رہا اور چودہ ہزار برس تک عرش کا طواف کرتا رہا اور پہلے آسمان میں اس کا نام عابد اور دوسرے آسمان میں زاہد، اور تیسرے آسمان میں عارف اور چوتھے آسمان میں ولی اور پانچویں آسمان میں تقی اور چھٹے آسمان میں خازن اور ساتویں آسمان میں عزازیل تھا اور لوح محفوظ میں اس کا نام ابلیس لکھا ہوا تھا اور یہ اپنے انجام سے غافل اور خاتمہ سے بے خبر تھا۔
(تفسیر صاوی، ج۱،ص۵۱،پ۱، البقرۃ : ۳۴، تفسیر جمل ،ج۱ ص ۶۰ )

لیکن جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تو ابلیس نے انکار کردیا اور حضرت آدم علیہ السلام کی تحقیر اور اپنی بڑائی کا اظہار کر کے تکبر کیا اسی جرم کی سزا میں خداوند ِ عالم نے اس کو مردود ِ بارگاہ کر کے دونوں جہان میں ملعون فرما دیا اور اس کی پیروی کرنے والوں کو جہنم میں عذاب ِ نار کا سزاوار بنادیا۔ چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہوا کہ:
(سورہ اعراف:12۔18)

ترجمہ قرآن:۔ فرمایا کس چیز نے تجھے روکا کہ تونے سجدہ نہ کیا جب میں نے تجھے حکم دیا تھا بولا میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اسے مٹی سے بنایا۔ فرمایا تو یہاں سے اتر جا تجھے نہیں پہنچتا کہ یہاں رہ کر غرور کرے نکل تو ہے ذلت والوں میں بولا مجھے فرصت دے اس دن تک کہ لوگ اٹھائے جائیں فرمایا تجھے مہلت ہے بولا تو قسم اس کی کہ تو نے مجھے گمراہ کیا میں ضرور تیرے سیدھے راستہ پر ان کی تاک میں بیٹھوں گا پھر ضرور میں ان کے پاس آؤں گا ان کے آگے اور پیچھے اور داہنے اوربائیں سے اور تو ان میں اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا فرمایا یہاں سے نکل جا رد کیا گیا راندہ ہوا ضرور جو ان میں سے تیرے کہے پر چلا میں تم سب سے جہنم بھر دوں گا۔

درسِ ہدایت:۔
قرآن مجید کے اس عجیب واقعہ میں عبرتوں اور نصیحتوں کی بڑی بڑی درخشندہ اور تابندہ تجلیاں ہیں اسی لئے اس واقعہ کو خداوند قدوس نے مختلف الفاظ میں اور متعدد طرز بیان کے ساتھ قرآن مجید کے سات مقامات میں بیان فرمایا ہے یعنی سورہ بقرہ، سورہ اعراف، سورہ حجر، سورہ بنی اسرائیل، سورہ کہف، سورہ طٰہٰ، سورہ ص میں اس دل ہلا دینے والے واقعہ کا تذکرہ مذکور ہے جس سے مندرجہ ذیل حقائق کا درس ہدایت ملتا ہے۔

(۱)اس سے ایک بہت بڑا درس ہدایت تو یہ ملتا ہے کہ کبھی ہرگز ہرگز اپنی عبادتوں اور نیکیوں پر گھمنڈ اور غرور نہیں کرنا چاہے اور کسی گنہگار کو اپنی مغفرت سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہے کیونکہ انجام کیا ہو گا اور خاتمہ کیسا ہو گا عام بندوں کو اس کی کوئی خبر نہیں ہے اور نجات و فلاح کا دارومدار درحقیقت خاتمہ بالخیر پر ہی ہے بڑے سے بڑا عابد اگر اس کا خاتمہ بالخیر نہ ہوا تو وہ جہنمی ہو گا اور بڑے سے بڑا گنہگار اگر اس کا خاتمہ بالخیر ہو گیا تو وہ جنتی ہو گا دیکھ لو ابلیس کتنا بڑا عبادت گزار اور کس قدر مقرب بارگاہ تھا اور کیسے کیسے مراتب و درجات کے شرف سے سرفراز تھا۔ مگر انجام کیا ہوا؟ کہ اس کی ساری عبادتیں غارت و اکارت ہو گئیں اور وہ دونوں جہان میں ملعون ہو کر عذاب ِ جہنم کا حق دار بن گیا۔ کیونکہ اس کو اپنی عبادتوں اور درجات کی بلندی پر غرور اور تکبر ہو گیا تھا مگر وہ اپنے انجام اور خاتمہ سے بالکل بے خبر تھا۔

حدیث شریف میں ہے کہ ایک بندہ اہل جہنم کے اعمال کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے اور ایک بندہ اہل جنت کے عمل کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ جہنمی ہوتا ہے۔ اِنَّمَاالْاَعْمَالُ بِالْخَوَاتِیْم یعنی عمل کا اعتبار خاتموں پر ہے۔ (مشکوٰۃالمصابیح،کتاب الایمان،باب الایمان بالقدر، الفصل الاول، ص ۲۰ )

خداوندکریم ہر مسلمان کو خاتمہ بالخیر کی سعادت نصیب فرمائے اور برے انجام اور برے خاتمہ سے محفوظ رکھے۔ آمین۔

(۲)اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عالم ہو یا جاہل متقی ہو یا گنہ گار ہر آدمی کو زندگی بھر شیطان کے وسوسوں سے ہوشیار اور اس کے فریبوں سے بچتے رہنا چاہے۔ کیونکہ شیطان نے قسم کھا کر خدا کے حضور میں اعلان کردیا ہے کہ میں آگے پیچھے اور دائیں بائیں سے وسوسہ ڈال کر تیرے بندوں کو صراط مستقیم سے بہکاتا رہوں گا اور بہت سے بندوں کو اللہ کا شکر گزار ہونے سے روک دوں گا۔

اللہ تعالی ہمیں شیطان کے شر سے محفوظ فرمائے اور مرتے وقت کلمہ کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین

!! معاشرے میں دن بدن پھیلتا ہوا ایک ناسور !!

0 comments
!! معاشرے میں دن بدن پھیلتا ہوا ایک ناسور !!

ان سے ملیے یہ بھائی کالج کے طالب علم ہیں۔

فیسبک پر شغل فرماتے ہیں اور مسلسل فرماتے ہیں۔ ایک روز سرفنگ کے دوران ڈیٹنگ کی ویب سائٹ کے اشتہار پر نظر پڑی جو کے بار بار دعوت گناہ دے رہی تھی۔

انھوں نے سوچا کہ کیوں نا اس کو بھی آج چیک کیا جاۓ۔
دو گھنٹے بعد انتہائی شرمندگی اور ڈپریشن کے عالم میں سسٹم آف کیا لیکن ابلیس کا وار کامیاب ہو ہی چکا تھا۔۔دو دن بعد یہی کاروائی دہرائی گئی اور آخر کار انکو بھی پورن دیکھنے (فحش فلمیں دیکھنا) کی لت لگ چکی تھی۔

یہ بھائی دین دار ہیں کسی مدرسے یا مذہبی جماعت کے ساتھ منسلک ہیں۔ڈیلی موشن یا کسی اور ویب سائٹ پر دوران سرفنگ کسی بیہودہ ویڈیو پر نظر پڑی شیطان نے سرگوشی کی یار دیکھ لو ایک دفعہ سے کیا ہوتا ہے۔

لیکن اب وہ ایک دفعہ وبال جان بن چکا ہے ۔۔اللہ سے توبہ بھی روز ہوتی پے لیکن گناہ ہے کہ پیچھا چھوڑتا نہیں۔
چہرے پر سنت رسول سجاۓ با عمل مسلمان بھی اس غلاظت میں گر چکا ہوتا ہے۔ اللہ کریم بڑے ستار ہیں پردہ پوشی فرماتے ہیں 
لیکن ہم میں سے ہر ایک کو اپنا حال معلوم ہی ہے۔

ان دو مثالوں کے علاوہ متعدد مثالیں ایسی ہیں جو واضح کرتی ہیں دنیا کو گلوبلائز کرنے کا دعوے دار انٹرنیٹ جہاں بہت سارے فائدے لایا ہے وہیں اس کے نقصانات بھی کم نہیں۔پورنو گرافی (فحش فلمیں دیکھنا) ایک ایسا سنگین مسئلہ ہے جس نے نوجوان نسل کو نا صرف معاشرتی بے راہ روی پر مجبور کیا ہے بلکہ ایک ایسا بھیڑیا بنا دیا ہے جو ہوس پورا کرنے کو ہی اپنا مقصد عین سمجھتا ہے۔

فحش نظری کا شکار عمومی طور پر غیر شادی شدہ نوجوان ہوتے ہیں لیکن بڑی عمر کے افراد کی تعداد بھی کچھ قلیل نہیں ہے۔

فحش نظری نامی بدی نے خاندان کے خاندان اجاڑ کر رکھ دیے ہیں اور ہمارے نوجوان سے قوتِ عمل سلب کر کے رکھ دی ہے۔ ( الا ما رحم ربی )

آئیے سب سے پہلے اس بیماری کا دنیاوی نکتہ نظر سے محاسبہ کرتے ہیں۔۔بنیادی طور پر ایک صحتمند معاشرے کو اس برائی نے ایسے جوہڑ میں دھکیلا ہے جس نے نوجوانوں کی صحت کو برباد کر کے رکھ دیا ہے۔

اطباء کے مطابق یہ غلیظ بیماری اور اس سے پیدا ہونے والی برائیاں انسان کے دل، گردے، دماغ، آنکھیں اور جنسی اعضا کو نا قابل یقین حد تک متاثر کرتی ہیں۔اسی فیصد بانجھ پن پورنوگرافی اور اس کے نتیجے میں سرزد ہونے والے مضر صحت گناہوں سے پیدا ہوتا ہے۔

وقتی لذت حاصل کرنے کے بعد انسان غصے، شرمساری، ڈیپریشن اور مایوسی کی ملی جلی کیفیات کے ساتھ زندگی کی طرف لوٹتا ہے۔۔بے نور چہرے لیے نوجوان اب خلاؤں میں اپنے عہد رفتہ کا عروج تلاش کرتے عملی زندگی سے کوسوں دور نکل چکے ہوتے ہیں۔

مزید یہ کہ روحانی طور پر انسان کھوکلھلا ہو چکا ہوتا ہے۔مخالف جنس اس کے لیے ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کی بجاۓ ایک ایسی چیز بن جاتی ہے جس سے صرف ہوس کی آگ بجھائی جا سکے۔

جسمانی نقصان کے علاوہ پورنوگرافی کے روحانی نقصانات بھی بے شمار ہیں۔پورنوگرافی اور اس کے نتیجے میں سرزد ہونے والے گناہوں سے انسان کا چہرہ ایمان کے نور سے محروم ہو جاتا ہے اور آہستہ آہستہ نیکیوں کی استعداد بھی چھنتی جاتی ہے۔تقوی تو نام ہی پاکیزگی کا ہے اور نفس کی پاکیزگی حقیقی کامیابی کی ضامن ہے۔

بقولہ تعالی "قد افلح من تزکی" یعنی جس نے تزکیہ کیا وہ کامیاب ہو گیا سو فحاشی و منکرات سے بچے بغیر پاکیزگی بھلا کیونکر ممکن ہو سکتی ہے.مسلمان کے لیے تو ہدایت کا منبع کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ ہی ہے۔

آئیے علمِ وحی کے نور میں اس صورتِ حال کا جائزہ لیتے ہیں

اللہ سبحانہ و تعالی کا ارشاد ہے
"اللہ حکم کرتا ہے انصاف کرنے کا اور بھلائی کرنے کا اور قرابت والوں کے (کو) دینے کا اور منع کرتا ہے بے حیائی سے اور نامعقول کام سے اور سرکشی سے تم کو سمجھاتا ہے تاکہ تم یاد رکھو۔"

اللہ سبحانہ نے اس آیت میں منع تین چیزوں سے کیا ۔ فحشاء ، منکر ، بغی۔ کیونکہ انسان میں یہی تین قوتیں ہیں جن کے بے موقع اور غلط استعمال سےساری خرابیاں اور برائیاں پیدا ہوتی ہیں۔ "فحشاء" سے وہ بے حیائی کی باتیں مراد ہیں جن کا منشاء شہوت اور حیوانی خواہشات کی تکمیل ہے۔پورنوگرافی بھی حیوانی لذات کی چاہ میں زنا کی سیڑھی کے طور پر انسان کا ایمان چوری کرنے کی کوشش کرتی ہے۔۔

"منکر" ہر وہ نامعقول کام جن پر فطرت سلیمہ اور عقل صحیح انکار کرے سو اس غلیظ برائی کو کونسی عقل صحیح تسلیم کرے گی۔"بغی" تو ہے ہی کھلی سرکشی کہ اس غلاظت سے انسان آبرو کا بھوکا درندہ بن جاتا ہے۔ 
الحاصل آیت میں تنبیہ فرما دی کہ انسان جب تک ان تینوں قوتوں کو قابو میں نہ رکھے اوراللہ کی عطا کردہ عقل کو وحی کے تابع کر کے ان سب پر حاکم نہ بنائے ، مہذب اور پاک نہیں ہو سکتا۔

ابن کثم بن صفی نے اس آیت کریمہ کو سن کر اپنی قوم سےکہا "میں دیکھتا ہوں کہ یہ پیغمبر تمام عمدہ اور اعلیٰ اخلاق کا حکم دیتے ہیں اور کمینہ اخلاق اور اعمال سے روکتے ہیں۔ تو تم اس کے ماننے میں جلدی کرو۔(یعنی تم اس سلسلہ میں سر بنو ، دم نہ بنو) حضرت عثمان بن مظعون فرماتے ہیں کہ اسی آیت کو سن کر میرے دل میں ایمان راسخ ہوا اور محمد ﷺ کی محبت جا گزیں ہوئی۔

اس پر مستزاد یہ کہ آقا و مولا ﷺ کے فرامین کی روشنی میں دیکھیں کہ الحیا من الایمان جیسی تنبیہات اور "اگر تم حیا نا کرو تو جو چاہے کرو" جیسی وعید کی روشنی میں ہم اس وقت کہاں کھڑے ہیں، اپنا ایمان اور اس ایمان کے بل پر کھڑی اعمال کی عمارت کو ٹٹولنے کی اشد ضرورت ہے۔

اب آتے ہیں اس مسئلہ کی جانب کہ اعمال و اسباب کے درجے میں اس غلیظ لت کو ترک کرنے کیلیے کیا اسباب اختیار کیے جائیں کہ تزکیہ نفس ہو جائے اور باحیا و صالح زندگی کی جانب لوٹنا ممکن ہو۔

اول یہ انسان اپنے اوپر لازم کر لے کہ کہ نماز با جماعت کسی حال میں بھی چھوٹنے نا پائے، آنکھوں کی ٹھنڈک، دل کی راحت، سارے جسم کا سکون، فواحشات و منکرات کو روکنے والی اور بلاؤں کو ٹالنے کا وسیلہ بننے والی یہی نماز ہی تو ہے۔

دوئم یہ کہ انسان اپنی بدعملی پر صدقِ دل اور امید و رجاء کیساتھ نادم ہو کر مالک کے سامنے جھکے، گڑگڑا کر معصیت سے عافیت کی جانب لوٹنا طلب کرے کہ حقیقی قبولیت تو رب کی بارگاہ سے ہی ممکن ہے۔ دلوں کا چین اللہ کے ذکر میں ہے اور ذکر اللہ کی عادت عموما اہل اللہ کی صحبت سے ہی نصیب ہوتی ہے سوانسان ذکر اللہ اور صحبت اہل اللہ کو اپنا شعار بنائے، جتنے بھی گناہ ہو جائیں انسان نیکی کے کام اس سے بڑھ کر جاری رکھے کہ نیکیاں گناہوں کو مٹا دیتی ہیں۔

پھر یہ کہ انسان حتی الوسع سکرینی زندگی ترک کر کے حقیقی زندگی کی جانب لوٹے، کسی بھی قسم کی سکرین (لیپ ٹاپ، موبائل، ٹی وی وغیرہ) سے ممکن حد تک اجتناب برتے اور غیر ضروری تو قریب بھی نا پھٹکنا چاہیے۔ کھانے پینے کے اوقات اور روز مرہ کی روٹین کو اعتدال پر لایا جائے، محدود مدت کیلیے خلوت میں بیٹھنا ترک کر دے،

باوضو رہنے کی عادت ڈالیے اور اپنی بساط میں مشتبہہ اور مشکوک چیزوں کو بھی چھوڑ دینا چاہیے کیونکہ مشتبہات اکثر اوقات حرام کا دروازہ ثابت ہوتا هے

اللہ تعالٰی ہم سب کو اس لعنت سے اپنے امان میں رکھے آمین

!! زندگی !!

0 comments
!!  زندگی !!

کسی کا درد آپ محسوس کرلیں اور پھر افسردگی آپ کے حواس کو جکڑ لے۔ یہ بات سمجھ آتی ہے۔
آپ اپنی ہی ذات سے پھوٹنے والے درد کو رویئے پہ طاری کر لیں۔ نگاہوں اور سماعتوں پہ قہر بن کے ٹوٹ جائیں۔ یہ بات سمجھ نہیں آتی۔

سمجھے نہیں شاید آپ۔۔!!!

عرض کرتا ہوں۔!!

جو میرے دکھ ہیں وہ میرے برتاؤ کی عنایتیں ہیں۔ کسی کی بے التفاتی کی سزائیں اب میں کاٹوں۔؟ خوش کامیوں میں اذیتوں کے رنگ بکھیردوں۔؟ ظرافت کی رگ کاٹ ڈالوں۔؟ لطافت کی حس کو آگ لگادوں۔؟ شگفتگی کو کرختگیوں کی جھلستی ہوئی بھٹیوں میں دھکیل دوں۔؟ شائستگی اور شستگی میں زہر گھول دوں ۔؟

میرا مطلب ہے۔۔!!

کیا کوئی اس لیئے وارد ہوا تھا ایک شبِ وصل عطا ہواور پھردل بے سمت رعنائیوں کے طواف پہ نکل جائے۔ ؟اور اگر شب ِ ہجر نے اپنے مہیب سائے پھیلا دیئے تو جینے سے انکار کر دیا جائے۔؟ یہ خود پسندی اور خود فریبی کی کتنی بڑی مثال ہوسکتی ہے اس پہ غور کیا ہے کبھی۔؟

میں غلط ہوں۔۔؟؟

تو آپ خود سوچیئے نا صاحب، کہ آپ سے وابستہ وہی ایک شخص تھا۔؟ یعنی کہ آپ کے لبوں پہ بہت قرینے سے مسکراہٹیں اس لیئےسجائی گئی تھیں کہ اسی کی نگاہِ ناز کو آسودگی پہنچے۔؟ آپ کی کشتِ ظرافت میں لفظوں کی غنچے اس لیئے مہکائے گئے تھے کہ بس متعین ذوق کی تسکین ہوا کرے۔؟ اداؤں میں شوخیوں کا رنگ اس لیئے بھرا گیا تھا کہ کسی شبستان میں شوق کے مشکبو دیئے جلے جائیں۔؟ وہ شبستان کہ جس کی سرمستیاں آپ سے شروع ہوکر آپ ہی پر ختم۔۔ وہ دیئے کہ جس کی مشکباریاں آپ ہی کے روح میں حشر برپا کر کے آپ ہی کے من میں دم توڑ جائیں۔ بس۔۔؟؟

اگر ایسا ہی ہے۔۔۔!!

تو پھر زندگی کے ہر قدم پہ جو لوگ ہم سے وابستہ ہوئے، کیا ان سے جرم سرزد ہوا۔ ؟ اگر ہاں، تو کیسے۔؟؟ اگر نہیں، تو پھر ہم ان کی قربتوں کو اپنی ناکام حسرتوں کی دہکائی جہنم میں جلاکر بھسم کیوں کردیتے ہیں۔؟ جو دھواں میرے ارمانوں کی راکھ سے اٹھتا ہے اس سے میں زندگی کے ہر روشن پہلو کو آلودہ کیوں کرتا ہوں۔؟؟ خواہشوں کے اوطاق میں اگر ایک دیا بجھ گیا، تو گرد وپیش میں پھیلی ہوئی کرنوں کا خون کرنے کا کیا مجھے حق حاصل ہوگیا۔؟؟

سنیں تو صاحب۔۔!!!

زندگی کا حق یہ ہے کہ اسے جیا جائے۔ افسردگیوں کی بھینٹ چڑھ کر امکان کی ہر لو کو بجھا دینا بہت آسان ہے۔ اذیتوں کے ہجوم میں جینے کی وجہ تلاش لانا اک ذرا خونِ جگر مانگتا ہے۔ المیہ مگر یہ ہے کہ افسردہ حالی اور کرب بیانی کو ہم نے دانشمندی کی نمایاں علامات میں سے سمجھ لیا۔ نہیں صاحب، ایسا نہیں ہے۔ بکھرے بال اور ادھڑے گریبان نگاہوں میں میں ایک بھیگا ہوا ماحول تو تخلیق کرلیتے ہیں، مگر طبعیتوں میں تعمیر کا ایک ذرہ بھی پیدا نہیں کر پاتے۔ ماضی کی وہ ساری نوحہ گریاں جو آپ کی ذات کے گرد گھومتی ہیں، وہ مستقبل کے مزاج میں ایک جنجھلاہٹ پیدا کرتی ہیں۔ وہ مستقبل جس کی تعمیر میں اپنے رویئے کا جھونکنے سوا ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں ہے۔

سو۔۔!!!!

جیا جائے۔زندگی کی ایذا رسانیوں کی سزا انہیں نہ دی جائے،جو ہم سے وابستہ ہوچکے۔ ماتھے پہ خواشگواریوں کو بسانا ایک طبعی ضرورت تو ہے ہی، مگر اس سے بڑھ کر یہ ایک سماجی فرض ہے۔ اور یہ کہ فرض اپنے اظہار کیلئے آمادگیوں کی طرف نہیں دیکھتا۔ !!!

’’اللہ آئی لو یو‘‘

0 comments
’’اللہ آئی لو یو‘‘
ہم اللہ کی عبادت، اس کا ذکر اور اس کی ثنا تو بیان کرتے ہی رہتے ہیں۔ مگر کبھی آپ نے قلب کی انہتائی گھری تہوں سے اٹھتی فرطِ جذباتِ میں ڈوبی آواز میں، دل ہی دل میں یہ کہا ہے کہ: ’’اللہ آئی لو یو‘‘؟ اگر نہیں تو پھر یہ کام کر کے دیکھیے، جو لطف آپ محسوس کریں گے وہ کسی اور چیز میں نہ پائیں گے۔
جب راہ چلتے آپ کی نظر کسی حسین و جمیل چہرے پر پڑ جائے تو نگاہوں کو فوراََ ہٹاتے ہوئے، دل ہی دل میں کہیے، ’’اللہ آئی لو یو‘‘۔ (یعنی کہ اے میرے مالک، میں نے نگاہیں اس لیے ہٹائیں کہ میں تجھ سے محبت کرتا ہوں)۔
جب کسی محتاج و مسکین پر نظر پڑے اور آپ کا دل اس کی کچھ مدد کرنے پر آمادہ ہو جائے تو اپنی مٹھی سے محتاج کے ہاتھ پر کچھ رکھتے ہوئے، چھرہ ایک طرف کرکے، آنکھیں بند کرکے، انتہائی محبت سے کہیے: ’’اللہ آئی لو یو‘‘۔
جب کسی ضعیف کو اپنے ہاتھوں میں بھاری بوجھ تھامے پیدل چلتا دیکھتے ہوئے آپ کے دل کے اندر رحم کی گھٹائیں اٹھیں اور آپ اپنی گاڑی کا دروازا کھول کر اسے بولیں کہ آئیے بابا جی، میں آپ کو چھوڑے دیتا ہوں۔ پھر اسے اس کی منزل پر پنہچا کر اپنا چہرہ آسمان کی طرف کرکے، دونوں ہاتھوں کو پھیلا کر، پوری گرمجوشی سے کہیے: ’’اللہ آئی لو یو‘‘؟
جب دفتری ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے آپ کو بے ایمانی اور بدعنوانی کرنے کا پورا پورا موقعہ میسر ہو مگر اللہ کی خاص رحمت سے آپ بچ جائیں تو اپنے بیوی بچوں کو حلال کا لقمہ منہ میں ڈالتے ہوئے، آسمان کی طرف چہرہ کیجیے اور بھرپور محبت اور جذبات سے بولیے: ’’اللہ آئی لو یو‘‘۔
جب آپ اپنے بچوں کے لیے کپڑے یا کھلونے خریدیں تو اپنے ہی خاندان کی کسی بیوہ یا مسکین ماں باپ کے بچوں کے لیے کبھی کپڑے یا کھلونے خرید کر ان کے حوالے کرتے ہوئے جب آپ کو خوشی محسوس ہو تو ایک طرف ہو کر دل ہی دل میں بولیے: ’’اللہ آئی لو یو‘‘۔
جب گھر سے باہر نکلیں، سڑکوں اور بازاروں میں درجنوں بیمار، اپاہج اور معذور افراد پر نظر پڑے اور اپ کے دل میں شکر کے جذبات پیدا ہوں کہ آپ ان تمام مصیبتوں اور بیماریوں سے محفوظ رہے تو ایک بار پھر دل ہی دل میں اس شدت اور بلند آواز سے ’’اللہ آئی لو یو‘‘ بولیے کہ انسانوں کے سوا سب مخلوقات سن لیں۔
اور جب گھری نیند سو رہے ہوں، موسم بھی یخ بستہ سردی کا ہو، دل بھی بستر چھوڑنے کو نہ کہہ رہا ہو، ایسے میں نماز فجر کے لیے اللہ کے منادی کی آواز کانوں میں پڑے تو میٹھی نیند کو قربان کرتے ہوئے آپ اگر بستر چھوڑ دیں اور مسجد کی طرف چل پڑیں تو ایک بار پھر اپنے پورے وجود کی قوت کو مجتمع کرتے ہوئے دل کی گہرائیوں سے کہیں: ’’اللہ آئی لو یو‘‘۔
اگر اسی کیفیت میں موت واقع ہوگئی اور اللہ کے حضور باریابی ہوئی تو مجھے پختہ یقین ہے کہ وہ انسان کے جذبات اور سچی محبت کا حقیقی قدردان ہے۔ وہی ہے جو مزدور کو پوری پوری اجرت، بلکہ اس کے حق سے بڑھا چڑھا کر دینے والا ہے۔ وہ نہ مال دولت کو دیکھتا ہے اور نہ سرداری اور بادشاہی کو۔ کوئی فقیر بھی اس کے ہاں کسی بادشاہ سے بڑا مقام اور درجہ پا سکتا ہے۔ بشرطیکہ نیت خالص اور محبت سچی ہو۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر سن لیجیے ۔ 
اب کی دفعہ باری آپ کی نہیں بلکہ اسی مالک کائنات کی ہے جس کے ہاتھ میں تمام خزانوں کی کنجیاں ہیں اور جو انسان سے اس کی ماں سے زیادہ محبت کرنے والاے ہے۔ اور مجھے امید ہے کہ بارگاہ ایزدی کے بالاخانوں سے ایسے سچے انسان اور اس کے دل گرویدہ کے لیے جو پکار بلند ہو گی وہ ہوگی:

’’بندہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آئی لو یو

!! یہ مشینی بستیاں !!

0 comments


!! یہ مشینی بستیاں !!



آسمان کو کھلتے دہانوں سے زار و قطار روتے دیکھ کر ذہن ماضی کے دھندلکوں میں کھو سا جاتا ہے، بارش اب بھی برستی ہے، بجلیاں چمکتی ہیں اور پانیوں کے سب راستوں پر آبی شور کے قہقہے بھی سننے والوں کو کسی حد تک سنائی دیتے ہیں مگر اب ان مشینی بستیوں کے مکین انگیٹھی کے گرد آلتی پالتی مارے آگ سینکتے، مونگ پھلی کھاتے خوش گپیاں نہیں ہانکتے۔ بالائی کو "تراڑ" کر مکھن نہیں بنایا جاتا کہ زمانہ اب نیسلے اور اولپرز کی کیمیکل حدوں کو چھو رہا ہے۔

برستے مینہ میں وہ بزرگوں کے حقے کی گڑگڑاہٹ، پرنالوں کا خوبصورت شور، گھر کے صحن کے اندر بارش کے چھوٹے چھوٹے بلبلوں کی چمک اور ان بلبلوں میں تیرتے دھریک کے زرد پتے۔۔۔۔۔۔۔۔ٹھنڈے جھکڑوں میں جھومتے ہوئے درختوں کی شوکیں اور ان شوکوں میں آواز کا بھمیریاں کھاتے گم ہو جانا۔۔۔پھر بارش کے بعد انھی شاخوں سے جھولا جھولتے ہوئے مزید بھیگ جانا۔۔۔اور پھر ٹھنڈ سے ٹھنڈے ہو کر پھلاہی اور کہو کی جلتی لکڑی کی مہک کی جانب دیوانہ وار دوڑنا۔۔۔۔۔ مشینوں کی بستی میں سب خواب ہو کر رہ گیا ہے۔

سرسبز، اونچے قدیم پہاڑ، خوبصورت وادیاں اور ان میں آباد قدیم مکینوں کی بڑی باتیں اور ان باتوں کی خوشبو سے مہکتی تازہ دم ہوائیں۔ ہر قسم کے طوفانِ باد و باراں کے بعد فصلوں کی خبرگیری کرتے کسان جن کے ہونٹ ہلتے ہوئے کبھی استغفار تو کبھی الحمد کا ورد کرتے مسبب السباب کی بارگاہ میں فریاد کناں، زہریلی کھادوں سے پاک خالص کھانے والے آنسو بھی خالص بہاتے تھے۔ مکمل اسلامی نہ سہی مگر یہ تہذیب خدا بیزار نا تھی۔ 

تارکول کے بنے کالے پکے رستوں پر دوڑتی مشینیں اور ان مشینوں کے سہارے گھسٹتی ہوئی زندگی بظاہر مضبوط مگر درون خانہ کمزور اور کھوکھلی۔۔۔۔۔ مادی و روحانی آندھیوں سے ہچکولے کھاتی۔۔ہسپتالوں می نت نئی بیماریوں اور دلوں میں نئی کدورتوں بد اعتقادیوں فتن سے لبریز تر۔۔۔۔ڈوبتی ہاتھ پیر مارتی روکھی پھیکی زندگی۔۔۔۔۔۔!

وہ جہاں سورج بھی غروب ہو جاتا ہے، وہاں کی درآمد شدہ مشینی تہذیب نے فطرتی حسن اور اس حسن کے بقاء کا ایک تسلسل، اس کی لطافتیں، اور ان لطافتوں میں تیرتی ہنستی کھیلتی حسین زندگی۔ شاید سب ہی غروب کر کے رکھ دیا ہے۔۔۔۔!
ہے کوئی جو اس کے سامنے بند باندھے ؟

فاعتبرو یاولی الابصار

!! خبردار چھٹی منع ہے!!

0 comments
!! خبردار چھٹی منع ہے!!


تو تمھیں چھٹی چاہیے، باس نے ایمپلائی کو گھورتے ہوئے کہا۔۔۔
 تمھاری چھٹی پر فیصلہ کرنے سے پہلے یہ بتائیں کہ تم کیا چاہ رہے ہو کچھ خبر بھی ہے۔۔۔۔
سال میں کام کے لیے 365 دن ہوتے ہیں، جس میں 52 ہفتے ہوتے ہیں، اور ہر ہفتہ میں دو چھٹیاں ملتی ہیں اپ کو۔۔۔
اور یوں کام کہ لیے 261 دن بچتے ہیں، چونکہ روزانہ تم 8 گھنٹے کام کرتے ہو اور 16 گھنٹے نہیں کرتے۔۔۔
اس طرح مزید 170 دن ضائع ہو جاتے ہیں، اور صرف 91 دن باقی رہ جاتے ہیں۔۔۔
روزانہ ایک گھنٹہ لنچ اور 30 منٹ کافی کے لیے بریک لازمی لیتے ہیں اپ۔۔۔
اب اگر حساب لگایا جائے تو باترتیب 46 اور 23 دن سالانہ مزید ضائع ہو گئے۔۔۔۔
اور اس طرح 22 دن بچتے ہیں، اور ان 22 دنوں میں اپ بیماری کے باعث غیر حاضر رہتے ہیں۔۔۔
اپ کو تو پتہ ہے 5 دن ھمارے افس کی سالانہ تعطیلات ہو جاتے ہیں۔۔۔۔
اور ہم اپنی ایمپلائی کو 14 دن سالانہ چھٹی دیتے ہیں، کل ملا کر یہ 21 دن بن جاتے ہیں، اور کام کہ لیے صرف یہی ایک دن بچتا ہے۔۔۔
اور اب اپ جناب کو اس ایک دن کی بھی چھٹی چاہیے؟

!! محبوب !!

0 comments
!! محبوب !!

 ایک ملنگ درویش بارش کے پانی میں عشق و مستی سے لبریز چلا جارہا تھا کہ اُس درویش نے ایک مٹھائی فروش کو دِیکھا جو ایک کڑھائی میں گرما گرم دودھ اُبال رہا تھا تُو موسم کی مُناسبت سے دوسری کڑھائی میں گرما گرم جلیبیاں تیار کررہا تھا ملنگ کچھ لمحوں کیلئے وہاں رُک گیا شائد بھوک کا احساس تھا یا موسم کا اثر تھا۔
ملنگ حلوائی کی بھٹی کو بڑے غور سے دیکھنے لَگا ملنگ کُچھ کھانا چاہتا تھا لیکن ملنگ کی جیب ہی نہیں تھی تو پیسے بھلا کیا ہُوتے ۔ ملنگ چند لمحے بھٹی سے ہاتھ سینکنے کے بعد چَلا ہی چاہتا تھا کہ نیک دِل حَلوائی سے رَہا نہ گیا اور ایک پیالہ گرما گرم دودھ اور چند جلیبیاں ملنگ کو پیش کردِیں ملنگ نے گرما گَرم جلیبیاں گَرما گرم دودھ کیساتھ نُوش کی اور پھر ہاتھوں کو اُوپر کی جانب اُٹھا کر حَلوائی کو دُعا دیتا ہُوا آگے چَلدِیا۔
ملنگ کا پیٹ بھر چُکا تھا دُنیا کے غموں سے بے پروا وہ پھر اِک نئے جُوش سے بارش کے گدلے پانی کے چھینٹے اُڑاتا چلا جارہا تھا وہ اِس بات سے بے خبر تھا کہ ایک نوجوان نو بیاہتا جُوڑا بھی بارِش کے پانی سے بَچتا بچاتا اُسکے پیچھے چَلا آ رھا ہے یکبارگی اُس ملنگ نے بارش کے گَدلے پانی میں اِس زور سے لات رَسید کی کہ پانی اُڑتا ہُوا سیدھا پیچھے آنے والی نوجوان عورت کے کَپڑوں کو بِھگو گیا اُس نازنین کا قیمتی لِباس کیچڑ سے لَت پَت ہُوگیا تھا اُسکے ساتھی نوجوان سے یہ بات برداشت نہیں ہُوئی۔
لِہذا وہ آستین چَڑھا کر آگے بَڑھا اور اُس ملنگ کو گریبان سے پَکڑ کر کہنے لگا کیا اندھا ہے تُجھے نظر نہیں آتا تیری حَرکت کی وجہ سے میری مِحبوبہ کے کَپڑے گیلے ہوچُکے ہیں اور کیچڑ سے بھر چُکے ہیں۔ ملنگ ہکا بَکا سا کھڑا تھا جبکہ اُس نوجوان کو مَجذوب کا خاموش رِہنا گِراں گُزر رہا تھا۔ عورت نے آگے بڑھ کر نوجوان کے ہاتھوں سے ملنگ کو چھڑوانا بھی چاہا لیکن نوجوان کی آنکھوں سے نِکلتی نفرت کی چنگاری دیکھ کر وہ بھی دوبارہ پیچھے کھسکنے پر مجبور ہو گئی ۔
راہ چلتے راہ گیر بھی بے حِسی سے یہ تمام منظر دیکھ رہے تھے لیکن نوجوان کے غُصے کو دیکھ کر کِسی میں ہِمت نہ ہُوئی کہ اُسے رُوک پاتے اور بلاآخر طاقت کے نشے سے چُور اُس نوجوان نے ایک زور دار تھپڑ ملنگ کے چہرے پر جَڑ دِیا بوڑھا ملنگ تھپڑ کے تاب نہ لاسکا اور لڑکھڑاتا ہُوا کیچڑ میں جا پڑا نوجوان نے جب ملنگ کو نیچے گِرتا دِیکھا تُو مُسکراتے ہُوئے وہاں سے چَل دیا۔
بوڑھے ملنگ نے آسمان کی جانب نِگاہ اُتھائی اور اُس کے لَب سے نِکلا واہ میرے مالک کبھی گَرما گَرم دودھ جلیبیوں کیساتھ اور کبھی گَرما گَرم تھپڑ، مگر جِس میں تُو راضی مجھے بھی وہی پسند ہے، یہ کہتا ہُوا وہ ایک بار پھر اپنے راستے پر چَل دِیا۔ دوسری جانب وہ نوجوان جُوڑا جوانی کی مَستی سے سرشار اپنی منزل کی طرف گامزن تھا تھوڑی ہی دور چَلنے کے بعد وہ ایک مکان کے سامنے پُہنچ کر رُک گئے وہ نوجوان اپنی جیب سے چابیاں نِکال کر اپنی محبوبہ سے ہنسی مذاق کرتے ہُوئے بالا خَانے کی سیڑھیاں طے کر رہا تھا۔
بارش کے سبب سیڑھیوں پر پھلسن ہو گئی تھی اچانک اُس نوجوان کا پاؤں رَپٹ گیا اور وہ سیڑھیوں سے نیچے گِرنے لَگا۔ عورت زور زور سے شور مچا کر لوگوں کو اپنے مِحبوب کی جانب متوجہ کرنے لگی جسکی وجہ سے کافی لوگ فوراً مدد کے واسطے نوجوان کی جانب لَپکے لیکن دیر ہو چُکی تھی نوجوان کا سَر پھٹ چُکا تھا اور بُہت ذیادہ خُون بِہہ جانے کی وجہ سے اُس کڑیل نوجوان کی موت واقع ہو چُکی کُچھ لوگوں نے دور سے آتے ملنگ کو دِیکھا تُو آپس میں چہ میگویئاں ہُونے لگیں کہ ضرور اِس ملنگ نے تھپڑ کھا کر نوجوان کیلئے بَددُعا کی ہے ورنہ ایسے کڑیل نوجوان کا صرف سیڑھیوں سے گِر کر مرجانا بڑے اَچھنبے کی بات لگتی ہے۔
چند منچلے نوجوانوں نے یہ بات سُن کر ملنگ کو گھیر لیا ایک نوجوان کہنے لگا کہ آپ کیسے اللہ والے ہیں جو صِرف ایک تھپڑ کی وجہ سے نوجوان کیلئے بَددُعا کر بیٹھے یہ اللہ والوں کی روِش ہَر گز نہیں کہ ذرا سی تکیلف پر بھی صبر نہ کر سکیں۔ وہ ملنگ کہنے لگا خُدا کی قسم میں نے اِس نوجوان کیلئے ہرگِز بَددُعا نہیں کی ! تبھی مجمے میں سے کوئی پُکارا اگر آپ نے بَددُعا نہیں کی تُو ایسا کڑیل نوجوان سیڑھیوں سے گِر کر کیسے ہلاک ہو گیا ؟
تب اُس ملنگ نے حاضرین سے ایک انوکھا سوال کیا کہ کوئی اِس تمام واقعہ کا عینی گَواہ موجود ہے؟ ایک نوجوان نے آگے بَڑھ کر کہا ، ہاں میں اِس تمام واقعہ کا عینی گَواہ ہُوں ملنگ نے اَگلا سوال کیا ،میرے قدموں سے جو کیچڑ اُچھلی تھی کیا اُس نے اِس نوجوان کے کپڑوں کو داغدار کیا تھا ؟ وہی نوجوان بُولا نہیں ،، لیکن عورت کے کَپڑے ضرور خَراب ہُوئے تھے ملنگ نے نوجوان کے بازو کو تھامتے ہُوئے پوچھا، پھر اِس نوجوان نے مجھے کیوں مارا ؟
نوجوان کہنے لگا، کیوں کہ وہ نوجوان اِس عورت کا محبوب تھا اور اُس سے یہ برداشت نہیں ہُوا کہ کوئی اُسکے مِحبوب کے کپڑوں کو گَندہ کرے اسلئے اپنے محبوب کی جانب سے اُس نوجوان نے آپکو مارا۔
نوجوان کی بات سُن کر ملنگ نے ایک نعرۂ مستانہ بُلند کیا اور یہ کہتا ہُوا وہاں سے رُخصت ہُوگیا پس خُدا کی قسم میں نے بَددُعا ہرگز نہیں کی تھی لیکن کوئی ہے جو مجھ سے مُحبت رکھتا ہے اور وہ اِتنا طاقتور ہے کہ دُنیا کا بڑے سے بڑا بادشاہ بھی اُسکے جبروت سے گھبراتا ھے
آپکی آرا اورتبصرے کی ضرورت ہے.....


!! کنواروں کے مزے !!

0 comments
!! کنواروں کے مزے !!

کنوارے بندے کو یہ بڑا فائدہ ہے کہ وہ بیڈ کے دونوں طرف سے اتر سکتا ہے
 ٹھیک کہتے ہیں... میں تو کہتا ہوں کنوارے بندے کو یہ بڑا فائدہ ہے کہ وہ رات کو گلی میں چارپائی ڈال کر بھی سو سکتا ہے‘‘ کمرے کی کھڑکیاں ہر وقت کھلی رکھ کر تازہ ہوا کا لطف اٹھا سکتا ہے‘رات کو لائٹ بجھائے بغیر سوسکتاہے۔۔۔
 میں جب بھی کسی کنوارے کو دیکھتا ہوں حسد میں مبتلا ہوجاتا ہوں
شادی شدہ بندے کی یہ بڑی پرابلم ہے کہ
وہ کنوارہ نہیں ہوسکتا‘ البتہ کنوارہ بندہ جب چاہے شادی شدہ ہوسکتاہے
ہمارے ہاں کنوارہ اُسے کہتے ہیں جس کی زندگی میں کوئی عورت نہیں ہوتی‘ حالانکہ یہ بات شادی شدہ بندے پر زیادہ فٹ بیٹھتی ہے‘ کنوارے تو اِس دولت سے مالا مال ہوتے ہیں۔
فی زمانہ جو کنوارہ ہے وہ زندگی کی تمام رعنائیوں سے لطف اندوز ہونے کا حق رکھتا ہے
وہ کسی بھی شادی میں سلامی دینے کا مستحق نہیں ہوتا
اُس کا کوئی سُسرال نہیں ہوتا
اُس کے دونوں تکیے اس کی اپنی ملکیت ہوتے ہیں
اُسے کبھی تنخواہ کا حساب نہیں دینا پڑتا
اُسے دوستوں میں بیٹھے ہوئے کبھی فون نہیں آتا کہ ’’آتے ہوئے چھ انڈے اور ڈبل روٹی لیتے آئیے گا‘‘
اُسے کبھی موٹر سائیکل پر کیرئیر نہیں لگوانا پڑتا
اُسے کبھی دوپٹہ رنگوانے نہیں جانا پڑتا
اُس کا کوئی سالا نہیں ہوتا لہذا اُس کی موٹر سائیکل میں پٹرول ہمیشہ پورا رہتا ہے
اُسے کبھی روٹیاں لینے کے لیے تندور کے چکر نہیں لگانے پڑتے
اُسے کبھی فکر نہیں ہوتی کہ کوئی اُس کا چینل تبدیل کرکے ’’میرا سلطان‘‘ لگا دے گا
اُس کے ٹی وی کا ریموٹ کبھی اِدھر اُدھر نہیں ہوتا
اُسے کبھی ٹی سیٹ خریدنے کی فکر نہیں ہوتی
اسے کبھی پردوں سے میچ کرتی ہوئی بیڈ شیٹ نہیں لینی پڑتی
اسے کبھی کہیں جانے سے پہلے اجازت نہیں لینی پڑتی
اسے کبھی اپنے موبائل میں خواتین کے نمبرزمردانہ ناموں سے save نہیں کرنے پڑتے
اسے کبھی کپڑوں کی الماری میں سے اپنی شرٹ نہیں ڈھونڈنی پڑتی
اسے کبھی انارکلی بازار میں مارا مارا نہیں پھرنا پڑتا
اسے کبھی بیڈ روم کے دروازے کا لاک ٹھیک کروانے کی ضرورت پیش نہیں آتی
اسے کبھی ٹوتھ پیسٹ کا ڈھکن بند نہ کرنے کا طعنہ نہیں سننا پڑتا
اسے کبھی دو جوتیاں نہیں خریدنی پڑتیں
اسے کبھی بیوٹی پارلر کے باہر گھنٹوں انتظار میں نہیں کھڑا ہونا پڑتا
اسے کبھی دیگچی کو ہینڈل نہیں لگوانے جانا پڑتا
اسے کبھی اپنے براؤزر کی ہسٹری ڈیلیٹ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی
اسے کبھی کسی کو منانا نہیں پڑتا
اسے کبھی کسی کی منتیں نہیں کرنی پڑتیں
اسے کبھی آٹے دال کے بھاؤ معلوم کرنے کی ضرورت نہیں پیش آتی
اسے کبھی موٹر سائیکل کے دونوں شیشے نہیں لگوانے پڑتے
اسے کبھی سٹاپ پر موٹر سائیکل گاڑیوں سے پرے نہیں روکنی پڑتی
اسے کبھی نہیں پتا چلتا کہ اس کا کون سا رشتہ دار کمینہ ہے
اسے کبھی اپنے گھر والوں کی منافقت اور برائیوں کا علم نہیں ہونے پاتا
اسے کبھی اپنے گھرکے ہوتے ہوئے کرائے کا گھر ڈھونڈنے کی ضرورت پیش نہیں آتی
اسے کبھی بہنوں بھائیوں سے ملنے میں جھجک محسوس نہیں ہوتی
اسے کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں جوڑنے پڑتے
اسے کبھی ماں کو غلط نہیں کہنا پڑتا
اس کی کنگھی اور صابن پر کبھی لمبے لمبے بال نہیں ملتے
اسے کبھی بدمزہ کھانے کو اچھا نہیں کہنا پڑتا
اسے کبھی میٹھی نیند کے لیے ترسنا نہیں پڑتا
اسے کبھی سردیوں کی سخت بارش میں نہاری لینے نہیں نکلنا پڑتا
اسے کبھی کمرے سے باہر جاکے سگریٹ نہیں پڑتا
اسے کبھی چھت کے پنکھے صاف نہیں کرنے پڑتے
اسے کبھی ’’پھول جھاڑو‘‘ خریدنے کی اذیت سے نہیں گذرنا پڑتا
اسے کبھی پیمپرزنہیں خریدنے پڑتے
اسے کبھی کھلونوں کی دوکانوں کے قریب سے گذرتے ہوئے ڈر نہیں لگتا
اسے کبھی صبح ساڑھے سات بجے اٹھ کر کسی کو سکول چھوڑنے نہیں جانا پڑتا
اسے کبھی اتوار کا دن چڑیا گھر میں گذارنے کا موقع نہیں ملتا
اسے کبھی باریک کنگھی نہیں خریدنی پڑتی
اسے کبھی سستے آلوخریدنے کے لیے چالیس کلومیٹر دور کا سفر طے نہیں کرنا پڑتا
اسے کبھی الاسٹک نہیں خریدنا پڑتا
اسے کبھی سبزی والے سے بحث نہیں کرنا پڑتی
اسے کبھی فیڈر اور چوسنی نہیں خریدنی پڑتی
اسے کبھی سالگرہ کی تاریخ یاد نہیں رکھنی پڑتی
اسے کبھی پیٹی کھول کر رضائیوں کو دھوپ نہیں لگوانی پڑتی
اسے کبھی دال ماش اور کالے ماش میں فرق کرنے کی ضرورت نہیں پیش آتی
اسے کبھی نیل پالش ریموور نہیں خریدنا پڑتا
اسے کبھی اپنی فیس بک کا پاس ورڈ کسی کو بتانے کی ضرورت پیش نہیں آتی
اسے کبھی گھر آنے سے پہلے موبائل کے سارے میسجز ڈیلیٹ کرنے کی فکر نہیں ہوتی
اسے کبھی ہیرکلپ نہیں خریدنا پڑتے
اسے کبھی موٹر کا پٹہ بدلوانے کی فکر نہیں ہوتی
اسے کبھی اچھی کوالٹی کے تولیے لانے کی ٹینشن نہیں ہوتی
اسے کبھی کسی کے خراٹے نہیں سننے پڑتے
اسے کبھی نیند کی گولیاں نہیں خریدنی پڑتیں
اسے کبھی سکول کی فیس ادا کرنے کا کارڈ نہیں موصول ہوتا
اسے کبھی کرکٹ میچ کے دوران یہ سننے کو نہیں ملتا کہ ’’آفریدی اتنے گول کیسے کرلیتا ہے؟
!کسی سینئر کنوارے کا شعر ہے کہ۔!
’’ہم سے بیوی کے تقاضے نہ نباہے جاتے
 ورنہ ہم کوبھی تمنا تھی کہ بیاہے جاتے